لہجے میں مصنوعی جوش و جذبہ اور کسی درد کو چھپانے کی ناکام کوشش !!
پھر بھی کہیں کہیں ضبط کا دامن ہاتھ سے چُھوٹ ہی گیااور
زبان میں لُکنت آگئی
ایسا لگا کہ جیسے ا بھی ریٹائرڈ جنرل اور پاکستان کا سابق صدر یہ کہے گا ” فوجی رویا نہیں کرتے میں رو تو نہیں رہا “ کہا توکچھ نہیں لیکن لاکھ کوشش کے باوجود
آنکھوں کی نمی چھپی نہ رہ سکی۔
مکا تو جاتے ہوئے بھی لہرایا لیکن اس مکے کی باڈی لنگیوئج اُس مکے سے کتنی مختلف تھی جو لال مسجد میں محصور طلباءوطالبات کو دھمکاتے ہوئے لہرایاتھا کہ باہر آجاﺅ ورنہ مارے جاﺅ گے ۔
یہ تو اٹھارہ اگست کا وہ صدر تھا جو قوم کو الوداع کہہ رہا تھا اور چہرے کا کرب یہ بتا رہا تھا کہ نو سال اقتدار کے مزے چکھنے والا یہ شخص آج کتنا ٹوٹ چکا تھا ۔ صرف چار دن قبل جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جشنِ آزادی کی دو سرکاری تقریبات منائی جا رہی تھیں تو تب بھی صدر کے اندر اور باہر تنہائی ہی تنہائی تھی ۔ہم سب پاکستانیوں نے مل کر یہاں شیخ رشید کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو مشرف کے طاقتور اقتدار کے دنوں میں یہ تسبیح کیا کرتا تھا کہ میرا تو باس مشرف ہی ہے اب سیاست اُسکے ساتھ ہی ختم ہوگی ۔ہم سب نے فیصل صالح حیات کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کی جو صدر کے وردی اتارنے سے پہلے یہ ”مقدس کلمہ “ایک سانس میں کئی کئی بار دہرایا کرتا کہ وردی والا صدر ملک کے لئے ناگزیر ہے ۔ ہماری آنکھیں یہاں شیر افگن کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہیں جو ایک سانس میں آئین کی کیسی کیسی دفعات نکال کر قوم پر یہ ثابت کیا کرتاتھاکہ صدر کا کہا تو آئینی اور قانونی اعتبار سے کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہ آنکھیں خورشید محمود قصوری کو تلاش کر رہی تھیں کہ جنہوں نے اپنے طاقت ور نجی تدریسی اداروں کی چین کے نصاب میں اپنے باس مشرف کی والدہ بیگم زریں مشرف کا انٹرویو نصاب کا حصہ بنا دیا تھا۔ طاقت کے ان سنہری دنوں میں آس پاس جگمگانے والے یہ سب سنہری چہرے مصیبت کے ایام آتے ہی پردہ نشیں ہو چکے تھے ۔چودہ اگست کی اس تقریب نے صدر کے بہت سے غم تازہ کر دئیے تھے اس لئے موصوف اعصاب شکن ذہنی دباﺅ سے چھٹکارا پانے کے لئے سگار کے کش پر کش لگا رہے تھے اور یہ بھی بھول گئے کہ کسی بھی سرکاری تقریب میں سگریٹ نوشی منع ہے ۔
نظروں کے سامنے رہ رہ کر اُس صدر کا چہرہ گھوم رہا تھا کہ جسے ارد گرد شہد کی مکھی کی طرح چپکے خوشامدیوں نے سو فیصدی یہ یقین دلا دیا تھا کہ وہ صدر ہیں اور ہمیشہ صدر ہی رہیں گے ۔کیسا جلال تھا اُس لہجے میں کہ جب بیرون ملک میڈیا کے کسی نمائندے نے کوئی چبھتا ہوا سوال کیا تو صدر صاحب نے اُس پاکستانی صحافی کی ٹھیک ٹھاک کلاس لیتے ہوئے پاکستانی کمیونٹی کو تلقین کی کہ ”ان جیسے لوگوں کو دو چار ٹکا دیں تو اچھا ہے“ کسی ایک موقع پر ایک صحافی نے پوچھا کہ”کیا انتخابات منصفانہ ہوں گے؟“ تو صدر صاحب اُس پر برس پڑے اور سیدھا جواب دینے کی بجائے کہا”آپ مجھے سرٹیفیکٹ لا دیں میں آپ کو دستخط کر دیتا ہوں “ مختار مائی کا نام ای سی ایل میں شامل کروا کر امریکہ گئے تو مائی کے حق میں مظاہرہ کرنے والی خواتین سے جھگڑ پڑے اور کہا” میں ایک سپاہی ہوں اور مجھے لڑنا آتا ہے ۔میں آپ سے لڑوں گا اور اگر آپ چیخیں گی تو میں آپ سے بھی زیادہ زور سے چیخ سکتا ہوں “کسی گورے صحافی نے مختار مائی پر لگائی جانے والی پابندی کی بابت سوال کیا تو صدر نے منہ سے ایسے اقوال زریں کہے کہ جو تاریخ میں ان کی یادوں کے ساتھ ہی دہرائے جائیں گے کہا” پاکستان میں لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ویزہ لینا ہے تو وہ ریپ کروا لے اور لکھ پتی بن جائے کینیڈا کا ویزہ اور شہریت دونوں مل جائیں گے “
آنکھیں اُس طاقت کے نشے میں ُچور صدر کو تلاش کر رہی تھیں جس نے نہتے لال مسجد کے طلباءو طالبات پر فاسفورس بم استعمال کروائے ۔ ریٹائرڈ فوجی تنقید کرنے لگے تو حقارت سے کہا یہ ”نو گُڈ مین “ یعنی بے کار لوگ ہیں ۔
بات بات پر ”میں ڈرتا ورتا نہیں “ کی رٹ لگانے والے کی آنکھوں میں نمی پہلی بار اُس وقت آئی جب 28 نومبر2007ءمیں آرمی چیف کا عہدہ چھوڑا اور کہا اس بات کا افسوس رہے گا کہ فوج کی کمان میرے پاس نہیں رہی اور کل میں اس کا حصہ نہیں ہوں گا “
یہ نمی دوسری بار اُس وقت آئی جب قوم سے خطاب میں اپنا استعفیٰ پیش کیا ۔
اٹھارہ اگست 2008 کے اس تاریخی دن میں اور مجھ جیسے کروڑوں پاکستانی یہ معصوم سی آس لگائے بیٹھے تھے کہ جناب صدر کو اب تک کی گئی غلطیوں کا احساس ہوا ہوگا اور وہ قوم سے اپنی خوفناک سابقہ غلطیوں اور گناہوں کی معافی مانگیں گے
ملک و آئین کی پامالی
لال مسجد میں بہتا خون
ڈاکٹر عافیہ اور لاتعداد بے گناہوں کی امریکہ حوالگی
متاثرین کی آواز کو دبانے کے لئے عدلیہ کے ادارے کو تاراج کرنا
12 مئی2007ءمیں بے گناہ شہریوں کا کراچی میں قتل عام
ہم سمجھے قوم سے آخری خطاب میں وہ اعتراف کریں گے کہ انکے دور میں پاکستانیوں کا خون پانی سے بھی سستا ہو کر سڑکوں پر بہا
اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو کے ماورائے عدالت قتل کا ذکر کریں گے اور اُنکی آنکھیں بھر آئیں گی کی یہ ظلم اُنکے دور میں ہوا ۔ لیکن آخری خطاب میں آنکھوں کی نمی کی وجہ ان میں سے کوئی وجہ نہ تھی بلکہ وہ ”پیارے“ تھے جو اس غلام گردش میں نہ جانے کہاں تھے ۔
نو سالوں میں ”میں سب سے زیادہ مقبول صدر ہوں “ کے خمار میں جینے والا مشرف اٹھارہ اگست کو کتنا اکیلا اور لاچار تھا!!
بالاخر عوام جیت گئے
جمہوریت جیت گئی “
اور ”سب سے زیادہ مقبول صدر“ کے حصے میں جاتے جاتے جو ذلت آئی اُسکی بھی پاکستانی تاریخ میں مثال نہیں ہے ۔ پاکستانی قوم مٹھائیاں بانٹ رہی ہے ہر طرف خوشی ہی خوشی ہے ۔ لوگ سڑکوں پر نکل کر ایک دوسرے سے بغلگیر ہوکر مبارکبادیں دے رہے ہیں اور دبے دبے لفظوں میں یہ وارننگ بھی سنائی دے رہی ہے کہ ” ،محفوظ راستہ “ کیوں ؟؟؟ کیا انصاف اسی محمد اسلام صدیقی کے لئے تھا جو مشرف پر حملے کے الزام میں 2005 میں گرفتار ہوا اور اُسے فوری طور پر پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ یہ فوری انصاف اس لئے ہوا کہ محمد اسلام غریب آدمی تھا جسکے گھر والے کھیتی باڑی سے گھر میں دال دانہ لاتے تھے ۔
مشرف کل بھی طاقتور تھا مشرف آج بھی طاقتور ہے اس لئے نہ مواخذہ ہوگا نہ کوئی کیس چلے گا۔
کیونکہ ہمارے ہاں غریب کے لئے پھانسی اور طاقتور کے لئے ”محفوظ راستہ“ ہے ۔
یہاں انصاف نہیں لیکن اُوپر انصاف ضرور ہے اور یہ انصاف ہم سب نے اُس بے چارگی میں دیکھا ہے جو جاتے جاتے مشرف کے چہرے پر عیاں تھی ۔ نفرت کا وہ اظہار بھی قدرت کا انصاف ہے جو کروڑوں پاکستانی کر رہے ہیں ۔ اس میں سبق ہے آنے والے اور موجودہ حکمرانوں کے لئے کہ جن کی مشکلات مشرف کے مستعفی ہونے سے ختم نہیں ہو گئیں بلکہ ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں ۔مشرف مشرف کا رونا ختم ہوا جسے زندہ طلسمات کے طور پر ہر مرض کے لئے اتحادی حکمران اب تک استعمال کر رہے تھے ۔اب اگر اتحادی حکومت میں سر پھٹول ہوا تو یہ بات طے ہے کہ جتنی ذلت سے مشرف کی رُخصتی ہوئی ہے اُس سے کہیں زیادہ ہزیمت موجودہ حکرانوں کو اُٹھانا پڑے گی کیونکہ پاکستانی عوام اب شخصیت پرستی اور موروثی سیاست کے حصار سے باہر نکل چکے ہیں اُنہیں صرف اور صرف پاکستان کی بقاءعزت اور اپنے مسائل کا حل چاہیئے۔اپنے بینک بیلنس اور صرف اپنی ذات کے گرد حکومت کی نیت کے ساتھ اقتدار سنبھالنے والے ایسی ہی رُخصتی کے لئے تیار رہیں۔