Home About Us Back Issues Current Issues Gallery Columnist Contact Us
 
border="0"
 
   Latest News
Front Page
City News
International News
Canada Pakistan News
Editorial
Show Biz
Sports
Edition
International News
Baqia
Edition
Real Estate
   
  News Paper  
   
  State  
   
  City  
   
   
   Business Listing
   New Registration
   Login
   
 
 
 
Columnist
اپنا اپنا قائد اعظم
Last Updated  :  Friday, 04 Dec 2009
 
 
 
 
 
 

پیر, 23 نومبر 2009 16:56

اپنا اپنا قائد اعظم 

بانیءپاکستان کانگرس میں محمد علی جناح گئے اور جب وہاں سے نکلے تو ایک بڑی تعداد کے لئے وہ قائد اعظم تھے “کسی نے بات تو بہت خوبصورت کی ہے لیکن ساٹھ سالہ پاکستان کو اُلٹ پُلٹ کریں تو یہ جُملہ ادھورا لگتا ہے ۔ اس کا تسلسل اس طرح بنتا ہے کہ محمد علی جناح کو جب پہلی بار کسی نے ”قائد اعظم“ کہہ کر پکارا ہوگا تو تب وہ خود بھی نہ جانتے ہوں گے کہ وہ اس ملک کے حصول کی جنگ لڑنے جارہے ہیں جہاں ہر سیاسی پارٹی کا اپنا ”قائد اعظم“ ہوگا ۔
 جی اپنا اپنا قائد اعظم 
یہ کہانی ہمارے نام نہاد رہنماﺅں کی شخصی خود پسندی کی کہانی ہے ۔
نسل در نسل اقتدار کو منتقل کرنے کی کہانی ہے ۔ 
قومی مفاہمتی ایجنڈے کو دھجیوں سے اُڑا کر اپنے مفادات کے حصول کی کہانی ہے۔ 
دلچسپ امر یہ ہے کہ 1988 میں جب ضیاءالحق کا طیارہ فضاءمیں پھٹا تو جمہوریت کا خواب دیکھنے والے ہر پاکستانی نے ایک سپنا آنکھوں میں سجایا کہ اب اس ملک کے دن بدل جائیں گے ۔لیکن شخصیات کے ٹکراﺅ نے 1988ءکے بعد ملک کو اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں ہر گذرتے دن کے ساتھ پاکستان کو ایک اندھی گلی میں بدلنے میں کوئی کسر روا نہ رکھی گئی اور ملک کی اقتصادیات کا وہ حال کیا گیا کہ بے بس پاکستانی فاقوں کے ڈر سے نہ کسی سیاسی حکمرا ںکے خلاف بولے اور نہ ہی کسی سول حکومت پر شب خون مارنے والے فوجی آمر کے خلاف !
اس چُپ کا نتیجہ کیا نکلا؟ حکمرانوں کی شخصی انا کا بُت اور قد آور ہوتا چلا گیا ۔
ضیاءالحق گیا بے نظیر آئی ۔ بے نظیر نے قوم سے خطاب کیا اس پہلے خطاب کے لفظ لفظ میں اظہار تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا اپنا قائد اعظم ہے اور یہ قائد اعظم محمد علی جناح نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو تھا ۔وزیر اعظم ہاﺅس سے لے کر ہر سرکاری ادارے میں محمد علی جناح نہیں بلکہ ”پیپلز پارٹی کے قائد اعظم “ ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر لگا دی گئی ۔ وزراءاپنی لیڈر اپنی ” قائد اعظم“ کو خوش کرنے کے چکر میں ہر جلسے ہر موقع پر ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قائد بنا کر پیش کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے چکر میں نظر آتے۔ یہ پاکستان اب ” جیالستان “ اور” پیپلز ستان “ بن چکا تھا ۔
نواز شریف کی اپوزیشن جماعت بھی کم نہ تھی سو اس دور میں ضیاءالحق کے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے کارناموں کو جگہ جگہ بیان کیا جاتا رہا اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے بننے والی مسلم لیگ کے کئی ٹکڑے ہوتے چلے گئے ۔
پھر کبھی بے نظیر آئی تو کبھی نواز شریف 
یعنی دس سالوں کی اس میوزک چیئرمیں کبھی قائد اعظم بنا ذوالفقار علی بھٹو تو کبھی ضیاءالحق !
بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو آٹھ سالہ جلاوطنی نے سیاسی پختگی تو دے دی لیکن تب تک اس پاکستان میں کوئی ایک نہیں چھوٹے بڑے کئی قائد اعظم جنم لے چکے تھے ۔
محمد علی جناح کا نام لے کر وجود میں آنے والی ”ق“ لیگ کا قائد اعظم پرویز مشرف تھا ۔
چوہدری شجاعت کا قائد اعظم ! پرویز مشرف
مشاہد حسین کا قائد اعظم ! پرویز مشرف 
پرویز الہیٰ کا قائد اعظم ! پرویز مشرف 
ان حکومتی نمائیندوں نے محمد علی جناح کے پورٹریٹ کو کہیں دور غائب کر دیا اور اب ان کے ارد گرد ہر طرف پرویز مشرف ہی پرویز مشرف تھا ۔پنجاب میں وزراءنے اپنا قائد اعظم چودھری پرویز الہیٰ کو قرار دیا ۔ حکومتی وزراءکھلم کھلاءاپنے کمروں میں پرویز الہیٰ کی قد آور تصاویر نصب کرتے اور جب صحافی دریافت کرتے کہ قائد اعظم کی تصویر کہاں ہے تو جواب ملتا یہی ہمارے قائد ہیں ۔
آج کے وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کی قائد اعظم بے نظیر بھٹو ہے 
آج کے صدر ِ پاکستان کی قائد اعظم بے نظیر بھٹو ہے
آج کے گورنر پنجاب کی قائد اعظم بے نظیر بھٹو ہے 
اس لئے صدارتی ایوانوں سے بانی ءپاکستان کی تصاویر ہٹا کر ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو اور پارٹی کے مسقبل کے قائد اعظم بلاول کی تصاویر لگا دی گئی ہیں ۔
اعتزاز احسن کا قائد اعظم افتخار چودھری بھی ہے اور آصف علی زرداری بھی ۔ اس لئے وہ لانگ مارچ بھی کرتا رہا اور یہ فارمولا بھی دہراتا رہا کہ میں اپنی پارٹی قیادت کو کسی مسئلے میں نہیں ڈالنا چاہتا ۔
ایم کیو ایم کا قائد اعظم الطاف حسین ہے ! 
سو پیارے پاکستانیو! یہ ہمارا پاکستان ہے جہاں ہر طرف قائد اعظم ہی قائد اعظم ہیں !
لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ امریکہ کا جب دل چاہتا ہے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بمباری کرکے درجنوں افراد کو موت کی نیند سُلا دیتا ہے کیونکہ تمام پارٹیوں کے قائد اعظم اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں ۔ ہر ایک کی اپنی اپنی ریاست ہے اپنی اپنی رعایا ہے اس لئے ان میں سے کوئی بھی ایسا عوامی اجتجاج منظم نہیں کرسکا کہ جو امریکہ کو چتاﺅنی دے کہ نیٹو افواج اگر پاکستان میں در اندازی کے ناپاک عزائم رکھتی ہیں تو وہ سوچ رکھیں کہ یہ قوم سو نہیں رہی ۔لیکن ایسا کون کرے ؟ وہ قوم جس کے لیڈر قوم کے باپ سے بھی اِس کا نام اور اُسکی کرسی چھیننے کی حرص رکھتے ہوں وہاں عوام شنوائی کے لئے کس کی طرف دیکھیں ؟
 ہم پاکستانیوں کے لئے سال میں ایک دن آتا ہے جب ہم بانیءپاکستان کو یاد کرتے ہیں اور اُن کی یاد میں رسمی تقاریر کرکے یا پھر اُنکے فرمودات کو محفلوں میں دہرا کر اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہیں، 25 دسمبر گذر جاتا ہے اور ہم سب ایک بار پھر سب بھُلا کر روزمرہ کی
 زندگی میں گم ہو جاتے ہیں اور خالی خالی نظروں سے اپنے ارد گرد پھیلے قائد اعظموں کو دیکھتے ہیں جنہوں نے اپنی اپنی پارٹی کی حدود میں اپنا اپنا پاکستان بنا رکھا ہے
Prev   Next
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Home | About Us | Back Issues | Current Issues | Gallery | Time Weather | Contact Us | Make A Payment
  Copyright 2007 All Rights reserved. Sundaytimescanada.com